پاکستان کھپے خصوصی رپورٹ: قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو زرداری کا جرات مندانہ خطاب

پارلیمنٹ ہاؤس میں بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے نہ صرف حکومتی کارکردگی کا نکتہ وار جائزہ پیش کیا بلکہ عوامی مسائل، وفاقی پالیسیوں اور ترقیاتی منصوبوں کے خدوخال پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ان کے لہجے میں وقار، لب و لہجہ میں سنجیدگی اور الفاظ میں عوامی درد واضح تھا۔

انہوں نے خطاب کے آغاز میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سیاست ان کے لیے اقتدار کا راستہ نہیں بلکہ عوامی خدمت کی امانت ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ عوام کو مہنگائی، بیروزگاری اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم جیسے مسائل درپیش ہیں، جنہیں صرف وہی قیادت حل کر سکتی ہے جو عوام سے جڑی ہو، نہ کہ مفاد پرست قوتوں سے۔

بلاول بھٹو زرداری نے موجودہ بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ محض اعداد و شمار سے ترقی کا بیانیہ نہیں بنتا بلکہ زمینی حقائق کی عکاسی ضروری ہے۔ انہوں نے دیہی علاقوں، نوجوانوں، خواتین اور اقلیتوں کے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان صرف شہروں کا نہیں، پسماندہ حلقوں کا بھی ہے اور ان کی آواز بھی سنی جانی چاہیے۔

خطاب کے دوران انہوں نے خارجہ پالیسی، کشمیر، افغانستان، اور بھارت کے ساتھ موجودہ کشیدگی پر بھی اظہار خیال کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کو مضبوط سفارتکاری کی ضرورت ہے، جس میں قومی مفاد، خودمختاری اور علاقائی استحکام اولین ترجیح ہو۔

انہوں نے پارلیمنٹ کو یاد دلایا کہ بے نظیر بھٹو نے کس طرح آمریت کے خلاف جدوجہد کی، جیلیں کاٹیں، جلاوطنی برداشت کی لیکن کبھی اصولوں سے پیچھے نہ ہٹیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آج ملک میں آئینی تسلسل قائم ہے، تو یہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا نتیجہ ہے۔

خطاب کے اختتام پر انہوں نے عوام سے وعدہ کیا کہ پیپلز پارٹی ہر حال میں ملک کی سالمیت، جمہوریت کے تحفظ، اور محروم طبقات کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی رہے گی۔ انہوں نے اپوزیشن سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں کو دعوت دی کہ قومی اتفاق رائے سے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کی کوشش کی جائے۔

بلاول بھٹو زرداری کا یہ خطاب محض ایک سیاسی تقریر نہ تھی، بلکہ ایک نظریاتی منشور تھا جو پاکستان کی جمہوری روح، عوامی ترجیحات اور آئندہ کا نقشہ راہ متعین کرتا ہے۔